آئنہ دیکھوں مگر کیا دیکھوں
خود کو ہاتھوں سے پھسلتا دیکھوں
منزل شوق کہیں اور نہیں
ڈوب جاؤں تو کنارا دیکھوں
کوئی قاتل ہی کہیں مل جائے
ایک انسان تو زندہ دیکھوں
وہ جو آیا ہے تو کیا آیا ہے
سامنے اور ہی چہرا دیکھوں
خلد کو اس لیے چھوڑ آیا تھا
یہ تمنا تھی کہ دنیا دیکھوں
آج پھر دل میں وہی خواہش ہے
یعنی کچھ اس سے نرالا دیکھوں
اور چارا نہیں تاثیرؔ کوئی
جو دکھائے یہ زمانا دیکھوں
غزل
آئنہ دیکھوں مگر کیا دیکھوں
شرما تاثیر