آئنہ آئنہ کیوں کر دیکھے
اپنے ہی داغ نظر بھر دیکھے
تم نے جلوے کو بھی چھونا چاہا
ہم نے خوشبو میں بھی پیکر دیکھے
آپ انساں ہوا صورت کا اسیر
شیشہ ٹوٹے تو سکندر دیکھے
ہم نے آواز لگائی سر طور
روپ جب شوق سے کمتر دیکھے
جلوۂ طور بجا تھا لیکن
آنکھ مشتاق تھی پیکر دیکھے
درد کو خوف بکھر جانے کا
آنکھ کو شوق کہ بڑھ کر دیکھے
مستقل سب کا پتہ ایک ہی تھا
کس نے فغفور و سکندر دیکھے

غزل
آئنہ آئنہ کیوں کر دیکھے
احسان اکبر