آئینے سے پردا کر کے دیکھا جائے
خود کو اتنا تنہا کر کے دیکھا جائے
ہم بھی تو دیکھیں ہم کتنے سچے ہیں
خود سے بھی اک وعدہ کر کے دیکھا جائے
دیواروں کو چھوٹا کرنا مشکل ہے
اپنے قد کو اونچا کر کے دیکھا جائے
راتوں میں اک سورج بھی دکھ جائے گا
ہر منظر کو الٹا کر کے دیکھا جائے
دریا نے بھی ترسایا ہے پیاسوں کو
دریا کو بھی پیاسا کر کے دیکھا جائے
اب آنکھوں سے اور نہ دیکھا جائے گا
اب آنکھوں کو اندھا کر کے دیکھا جائے
یہ سپنے تو بالکل سچے لگتے ہیں
ان سپنوں کو سچا کر کے دیکھا جائے
گھر سے نکل کر جاتا ہوں میں روز کہاں
اک دن اپنا پیچھا کر کے دیکھا جائے
غزل
آئینے سے پردا کر کے دیکھا جائے
بھارت بھوشن پنت