آئینہ صاف تھا دھندلا ہوا رہتا تھا میں
اپنی صحبت میں بھی گھبرایا ہوا رہتا تھا میں
اپنا چہرہ مجھے کتبے کی طرح لگتا تھا
اپنے ہی جسم میں دفنایا ہوا رہتا تھا میں
جس محبت کی ضرورت تھی مرے لوگوں کو
اس محبت سے بھی باز آیا ہوا رہتا تھا میں
تو نہیں آتا تھا جس روز ٹہلنے کے لیے
شاخ کے ہاتھ پہ کملایا ہوا رہتا تھا میں
دوسرے لوگ بتاتے تھے کہ میں کیسا ہوں
اپنے بارے ہی میں بہکایا ہوا رہتا تھا میں
غزل
آئینہ صاف تھا دھندلا ہوا رہتا تھا میں
انجم سلیمی