آئنہ پیار کا اک عکس ترا مانگے ہے
دل بھرے شہر میں بس تیری صدا مانگے ہے
جسم خود سر ہے کہ ہر درد سہے جاتا ہے
ایسا ضدی ہے کہ جینے کی سزا مانگے ہے
رات ڈھل جائے تو ہاتھوں کی لکیریں جاگیں
بے سکوں ذہن ہمیشہ یہ دعا مانگے ہے
خوش بدن ہو تو ذرا خود کو بچا کر رکھو
موسم زرد کوئی پیڑ ہرا مانگے ہے
میں ہی خود کو کسی مقتل میں سجا کر رکھ دوں
تیز آندھی کوئی ننھا سا دیا مانگے ہے
کون ہے جو کہ سرابوں سے الجھنا چاہے
کون ہے جو کہ مرے گھر کا پتہ مانگے ہے
پرورش جس میں گل تازہ کی ہوتی ہے نیازؔ
پیار کا پھول وہی آب و ہوا مانگے ہے
غزل
آئنہ پیار کا اک عکس ترا مانگے ہے
نیاز حسین لکھویرا