آئینہ میرا بدل کر لے گیا
کس لیے مجھ کو سفر پر لے گیا
سب سکوں میرا سمندر لے گیا
نیند آنکھوں کی چرا کر لے گیا
خالی دامن گھر میں آیا اور پھر
دھوپ جتنی تھی وہ بھر کر لے گیا
میں تعاقب میں رہا جس کے لیے
اس کو کوئی گھر سے باہر لے گیا
جانے اس کو کیا نظر آیا یہاں
باندھ کر میرا ہی وہ گھر لے گیا
گھر تہی دامن وہ جاتا کس طرح
درد و غم جو تھا بچا کر لے گیا
غزل
آئینہ میرا بدل کر لے گیا
ساحل احمد