EN हिंदी
آئینہ میرا بدل کر لے گیا | شیح شیری
aaina mera badal kar le gaya

غزل

آئینہ میرا بدل کر لے گیا

ساحل احمد

;

آئینہ میرا بدل کر لے گیا
کس لیے مجھ کو سفر پر لے گیا

سب سکوں میرا سمندر لے گیا
نیند آنکھوں کی چرا کر لے گیا

خالی دامن گھر میں آیا اور پھر
دھوپ جتنی تھی وہ بھر کر لے گیا

میں تعاقب میں رہا جس کے لیے
اس کو کوئی گھر سے باہر لے گیا

جانے اس کو کیا نظر آیا یہاں
باندھ کر میرا ہی وہ گھر لے گیا

گھر تہی دامن وہ جاتا کس طرح
درد و غم جو تھا بچا کر لے گیا