آئینۂ حیات پہ چھایا غبار ہے
جس کی طرف اٹھائیں نظر دل فگار ہے
تصویر تیری عہد حسیں کا ہے ایک نقش
جو میرے شہر دل میں تری یادگار ہے
تیری شراب پاش نگاہوں کے فیض سے
اب بے پیے ہی مجھ کو سرور و خمار ہے
خوشبو تمہاری ڈھونڈھتی پھرتی رہی ہمیں
پہنچی وہیں جہاں پہ ہمارا مزار ہے
چاہو جو تم نہ مجھ سے خفا ہو کبھی بہار
دنیائے رنگ و بو پہ تمہیں اختیار ہے
آ جاؤ تم بہار کی تکمیل کے لئے
موسم ہے دل فریب فضا سازگار ہے
سرتاجؔ قصر زیست عمارت عجیب ہے
نے گوشۂ پناہ نہ راہ فرار ہے

غزل
آئینۂ حیات پہ چھایا غبار ہے
سرتاج عالم عابدی