آئینۂ دل میں کچھ اگر ہے
تیرا ہی جمال جلوہ گر ہے
ہم مر گئے تیری جستجو میں
بے رحم کہاں ہے تو کدھر ہے
رہبر نہیں چاہتی رہ عشق
واں شوق ہی اپنا راہ بر ہے
کیوں مارے ہے لاف حج اکبر
اپنے کئے پر بھی کچھ نظر ہے
کعبے سی جگہ پہنچ پھر آیا
تو حاجی نہیں ہے گیدی خر ہے
اس در ہی کی آرزو میں ؔجوشش
یہ مشت غبار در بہ در ہے
غزل
آئینۂ دل میں کچھ اگر ہے
جوشش عظیم آبادی