آئینۂ دل داغ تمنا کے لیے تھا
سینے کا صدف اک در یکتا کے لیے تھا
جو تیرنے والے تھے وہ منجدھار سے گزرے
دریا کا کنارہ کف دریا کے لیے تھا
کیوں ہاتھ میں تیرے مجھے پتھر نظر آیا
دیوانہ اگر تھا تو میں دنیا کے لیے تھا
گزرا نہ ترے بعد کوئی کوچۂ دل سے
یہ راستہ اک نقش کف پا کے لیے تھا
دیوار سے رکتا نہیں دیوار کا سایہ
ضبط غم ماضی غم فردا کے لیے تھا
کوئی نہیں محفوظ یہاں دست ہوس سے
یوسف کا جو دامن تھا زلیخا کے لیے تھا
بے پردہ چمکتا ہے جو اب محفل شب میں
وہ چاند صمدؔ کل ید بیضا کے لیے تھا

غزل
آئینۂ دل داغ تمنا کے لیے تھا
صمد انصاری