EN हिंदी
آئینۂ دل داغ تمنا کے لیے تھا | شیح شیری
aaina-dil dagh-e-tamanna ke liye tha

غزل

آئینۂ دل داغ تمنا کے لیے تھا

صمد انصاری

;

آئینۂ دل داغ تمنا کے لیے تھا
سینے کا صدف اک در یکتا کے لیے تھا

جو تیرنے والے تھے وہ منجدھار سے گزرے
دریا کا کنارہ کف دریا کے لیے تھا

کیوں ہاتھ میں تیرے مجھے پتھر نظر آیا
دیوانہ اگر تھا تو میں دنیا کے لیے تھا

گزرا نہ ترے بعد کوئی کوچۂ دل سے
یہ راستہ اک نقش کف پا کے لیے تھا

دیوار سے رکتا نہیں دیوار کا سایہ
ضبط‌ غم ماضی غم فردا کے لیے تھا

کوئی نہیں محفوظ یہاں دست ہوس سے
یوسف کا جو دامن تھا زلیخا کے لیے تھا

بے پردہ چمکتا ہے جو اب محفل شب میں
وہ چاند صمدؔ کل ید بیضا کے لیے تھا