آئینہ دیکھتا ہوں نظر آ رہے ہو تم
کتنے قریب مجھ سے ہوئے جا رہے ہو تم
یہ کیا فریب ہے کہ جو فرما رہے ہو تم
میں خود کو ڈھونڈھتا ہوں ملے جا رہے ہو تم
تم کو یہ پیچ و تاب کی مشکل ہے میری راہ
مجھ کو یہ اضطراب کہ گھبرا رہے ہو تم
اتنا بھی کر سکے گا نہ کیا میرا دست شوق
کیوں زلف کائنات کو سلجھا رہے ہو تم
تم ہو تمہارا میں ہوں تمہاری بہار ہے
یہ کس کو دیکھ دیکھ کے شرما رہے ہو تم
آنکھوں میں اشک دل میں خلش لب پہ ہے فغاں
یہ خود تڑپ رہے ہو کہ تڑپا رہے ہو تم
میرا چمن تو ہے مگر اپنا کہوں نہ میں
ہاں میں سمجھ رہا ہوں جو سمجھا رہے ہو تم
ہے ان کو ناز پردۂ ماہ و نجوم پر
کیسے کہوں کہ صاف نظر آ رہے ہو تم
رہ رہ کے کوندتی ہیں اندھیرے میں بجلیاں
تم یاد کر رہے ہو کہ یاد آ رہے ہو تم
اس کا ملال ہے کہ ستم سہ رہے ہیں ہم
اس کا گلا نہیں کہ ستم ڈھا رہے ہو تم
غزل
آئینہ دیکھتا ہوں نظر آ رہے ہو تم
حیرت گونڈوی