آئینہ بن جائیے جلوہ اثر ہو جائیے
سامنے وہ ہوں تو سر تا پا نظر ہو جائیے
سوز دل سے گوشۂ تنہائی میں کیا فائدہ
اس طرح جلیے چراغ رہ گزر ہو جائیے
اس اداسی کا دھندلکا ختم ہو شاید کبھی
شام سے پہلے ہی عنوان سحر ہو جائیے
منزل الفت پہ دل تنہا پہنچ سکتا نہیں
آپ اگر چاہیں تو میرے ہم سفر ہو جائیے
خود بخود سارے زمانے کو خبر ہو جائے گی
ہوشیاری ہے کہ سب سے بے خبر ہو جائیے
شوق کہتا ہے کہ سجدوں میں تسلسل چاہئے
دل یہ کہتا ہے کہ جذب سنگ در ہو جائیے
جب کسی سے پیش قدمی ظلم کی رکتی نہ ہو
اس جگہ لازم ہے خود سینہ سپر ہو جائیے
اک عذاب مستقل ہے فکر تعمیر مکاں
ساکن صحرائے بے دیوار و در ہو جائیے
کشمکش میں انفرادیت ضروری ہے صباؔ
جس طرف کوئی نہیں ہوتا ادھر ہو جائیے
غزل
آئینہ بن جائیے جلوہ اثر ہو جائیے
صبا اکبرآبادی