آئین اسیری کے یہ معیار نئے ہیں
زنداں تو وہی ہے در و دیوار نئے ہیں
اخلاص مکینوں کا تو دیکھا نہیں اب تک
ہاں شہر کے سب کوچہ و بازار نئے ہیں
دشمن سے تو کچھ خوف نہ اب ہے نہ کبھی تھا
ڈر یہ ہے کہ اب میرے طرفدار نئے ہیں
باقی نہیں پہلی سی وہ تقدیس محبت
اب حسن نیا اس کے پرستار نئے ہیں
پہچان لیا ہم نے تمہیں راہ نماؤ
باتیں وہی پیرایۂ اظہار نئے ہیں
سہما ہوا سناٹا ہے مخدوش فضائیں
اب دیکھ کے چلے گا یہ آثار نئے ہیں
بازار کی رونق وہی پہلی سی ہے کوثرؔ
اتنا ہے کہ اس بار خریدار نئے ہیں

غزل
آئین اسیری کے یہ معیار نئے ہیں
مہر چند کوثر