آئی ہے کچھ نہ پوچھ قیامت کہاں کہاں
اف لے گئی ہے مجھ کو محبت کہاں کہاں
بیتابی و سکوں کی ہوئیں منزلیں تمام
بہلائیں تجھ سے چھٹ کے طبیعت کہاں کہاں
فرقت ہو یا وصال وہی اضطراب ہے
تیرا اثر ہے اے غم فرقت کہاں کہاں
ہر جنبش نگاہ میں صد کیف بے خودی
بھرتی پھرے گی حسن کی نیت کہاں کہاں
راہ طلب میں چھوڑ دیا دل کا ساتھ بھی
پھرتے لیے ہوئے یہ مصیبت کہاں کہاں
دل کے افق تک اب تو ہیں پرچھائیاں تری
لے جائے اب تو دیکھ یہ وحشت کہاں کہاں
اے نرگس سیاہ بتا دے ترے نثار
کس کس کو ہے یہ ہوش یہ غفلت کہاں کہاں
نیرنگ عشق کی ہے کوئی انتہا کہ یہ
یہ غم کہاں کہاں یہ مسرت کہاں کہاں
بیگانگی پر اس کی زمانے سے احتراز
در پردہ اس ادا کی شکایت کہاں کہاں
فرق آ گیا تھا دور حیات و ممات میں
آئی ہے آج یاد وہ صورت کہاں کہاں
جیسے فنا بقا میں بھی کوئی کمی سی ہو
مجھ کو پڑی ہے تیری ضرورت کہاں کہاں
دنیا سے اے دل اتنی طبیعت بھری نہ تھی
تیرے لئے اٹھائی ندامت کہاں کہاں
اب امتیاز عشق و ہوس بھی نہیں رہا
ہوتی ہے تیری چشم عنایت کہاں کہاں
ہر گام پر طریق محبت میں موت تھی
اس راہ میں کھلے در رحمت کہاں کہاں
ہوش و جنوں بھی اب تو بس اک بات ہیں فراقؔ
ہوتی ہے اس نظر کی شرارت کہاں کہاں
غزل
آئی ہے کچھ نہ پوچھ قیامت کہاں کہاں
فراق گورکھپوری