آئی ہے اب یاد کیا رات اک بیتے سال کی
یہی ہوا تھی باغ میں یہی صدا گھڑیال کی
مہک عجب سی ہو گئی پڑے پڑے صندوق میں
رنگت پھیکی پڑ گئی ریشم کے رومال کی
شہر میں ڈر تھا موت کا چاند کی چوتھی رات کو
اینٹوں کی اس کھوہ میں دہشت تھی بھونچال کی
شام جھکی تھی بحر پر پاگل ہو کر رنگ سے
یا تصویر تھی خواب میں میرے کسی خیال کی
عمر کے ساتھ عجیب سا بن جاتا ہے آدمی
حالت دیکھ کے دکھ ہوا آج اس پری جمال کی
دیکھ کے مجھ کو غور سے پھر وہ چپ سے ہو گئے
دل میں خلش ہے آج تک اس ان کہے سوال کی
غزل
آئی ہے اب یاد کیا رات اک بیتے سال کی
منیر نیازی