EN हिंदी
آئی اے گلعذار کیا کہنا | شیح شیری
aai ai gul-ezar kya kahna

غزل

آئی اے گلعذار کیا کہنا

وزیر علی صبا لکھنؤی

;

آئی اے گلعذار کیا کہنا
خوب آئی بہار کیا کہنا

مہندی مل کر ہے چوٹ مرجاں پر
ہاتھ لالہ نگار کیا کہنا

مجھ سے عاشق کے اور یوں نفریں
واہ شاباش یار کیا کہنا

برق بھی درکنار رہ جائے
ہاں دل بے قرار کیا کہنا

لاکھ بار امتحان عشق کیا
نہ کہا ایک بار کیا کہنا

بحث گریہ میں ابر بول گیا
دیدۂ اشک بار کیا کہنا

میں تو روتا ہوں آپ ہنستے ہیں
یہی ہوتا ہے یار کیا کہنا

سختیٔ عشق جھیل لے اے دل
واہ رے بردبار کیا کہنا

مر گئے ہم مگر نہ رحم آیا
وہی تیور ہیں یار کیا کہنا

خار خار غم دل پر درد
چیخ کر اے ہزار کیا کہنا

کہہ تو للکار لیں رقیبوں کو
بات رکھ لی نگار کیا کہنا

جوش الفت میں اور ضبط اے دل
جبر پر اختیار کیا کہنا

یوں تو جو گل ہے خوب ہے لیکن
تیرا اے گلعذار کیا کہنا

اے صباؔ دعویٔ انا الحق ہے
خوب سوچے ہو یار کیا کہنا