EN हिंदी
آہیں افلاک میں مل جاتی ہیں | شیح شیری
aahen aflak mein mil jati hain

غزل

آہیں افلاک میں مل جاتی ہیں

بقا اللہ بقاؔ

;

آہیں افلاک میں مل جاتی ہیں
محنتیں خاک میں مل جاتی ہیں

صورتیں آبلہ ہائے دل کی
خوشۂ تاک میں مل جاتی ہیں

صید بسمل کی نگاہیں صیاد
تیرے فتراک میں مل جاتی ہیں

نگہیں یار کی جوں تار رفو
جگر چاک میں مل جاتی ہیں

پوپلے زاہدوں کی کھاتے وقت
ٹھوڑیاں ناک میں مل جاتی ہیں

تھلکیاں دل کی بقاؔ دیکھوں گی
زخم کاواک میں مل جاتی ہیں