آہٹوں سے دماغ جلتا ہے
آج سکہ ہوا کا چلتا ہے
تھرتھراتی ہے لو مشیت کی
ایک محشر فضا میں پلتا ہے
سر اٹھاتے ہیں نقش پاؤں تلے
سایہ جب آدمی کا ڈھلتا ہے
رنگ چنتا ہے ذہن بلور
جسم جب دھوپ سے پگھلتا ہے
اپنے محور پہ شام تک سورج
کتنے ہی زاویے بدلتا ہے
کر کے پتھر سے پاش پاش ہمیں
شہر کا شہر ہاتھ ملتا ہے
شعلہ زن ہے غم حیات صمدؔ
پربتوں سے دھواں نکلتا ہے

غزل
آہٹوں سے دماغ جلتا ہے
صمد انصاری