آہ یہ دور کہ جس میں لب و رخسار بکے
دست فطرت کے بنائے ہوئے شہکار بکے
دل کے جذبات بکے ذہن کے افکار بکے
سچ تو یہ ہے کہ ہر اک عہد میں فن کار بکے
عصر حاضر میں کوئی چیز بھی انمول نہیں
عشق کی آن بکے حسن کا پندار بکے
اک دہکتی ہوئی دوزخ کو بجھانے کے لیے
کتنے ہی پھول سے پیکر سر بازار بکے
نفس کی دیوی کا پر کیف اشارا پا کر
صاحب ہوش بکے صاحب کردار بکے
خود غرض چند نگہبانوں کے ہاتھوں اکثر
پھول تو پھول ہیں گلزار کے گلزار بکے
بزم ساقی بھی وہ بازار طرب ہے واحدؔ
ایک ساغر پہ جہاں فطرت خوددار بکے
غزل
آہ یہ دور کہ جس میں لب و رخسار بکے
واحد پریمی