آہ وہ شعلہ ہے جو جی کو بجھا کے اٹھے
درد وہ فتنہ ہے جو دل کو بٹھا کے اٹھے
آپ کی یاد میں ہم اے صنم غفلت کیش
ایسے بیٹھے کہ قیامت ہی اٹھا کے اٹھے
ایک دزدیدہ نظر سے مرا دل چھین کے واہ
تم کدھر کو مری جاں آنکھ بچا کے اٹھے
عرصۂ حشر تک اک لگ گیا تانتا ان کا
مردے قبروں سے جو تیرے شہدا کے اٹھے
رمضاں کیونکہ برس بھر کو سمجھ بیٹھیں ہم
آئے دن کے بھی کسی سے یہ کڑاکے اٹھے
دل نشیں رحمت حق جب سے ہوئی ہے کیفیؔ
دغدغے دل سے مرے روز جزا کے اٹھے
غزل
آہ وہ شعلہ ہے جو جی کو بجھا کے اٹھے
دتا تریہ کیفی