آہ شرمندۂ اثر نہ ہوئی
کوئی تدبیر کارگر نہ ہوئی
ملتفت آپ کی نظر نہ ہوئی
شاخ امید بارور نہ ہوئی
ہم نے دن جس جگہ گزار دیا
رات اپنی وہاں بسر نہ ہوئی
عیب اوروں کے ڈھونڈتے ہیں ہم
اپنے افعال پر نظر نہ ہوئی
قصۂ غم اگر نہ تھا کوتاہ
زندگانی بھی مختصر نہ ہوئی
رہ گئی دل میں داغ دل بن کر
وہ تمنا جو بارور نہ ہوئی
داد دو میرے ضبط غم کی مجھے
دل بھی رویا تو چشم تر نہ ہوئی
میرے تخئیل کی بلندی بھی
کبھی محتاج بال و پر نہ ہوئی
خوبیاں دیکھیے مقدر کی
ہو گئی شام تو سحر نہ ہوئی
ان سے ملنے کی آرزو پوری
بات ممکن سہی مگر نہ ہوئی
دل پہ گزرے وہ حادثے شنکرؔ
اک گھڑی چین سے بسر نہ ہوئی
غزل
آہ شرمندۂ اثر نہ ہوئی
شنکر لال شنکر