آہ و نالہ نے کچھ اثر نہ کیا
ہجر کی شام کو سحر نہ کیا
تلخئ صبر خوش گوار ہوئی
زہر نے بھی مجھے اثر نہ کیا
سر کو پھوڑا جو کوہ کن نے تو کیا
عشق میں کس نے نذر سر نہ کیا
کون سی ایسی آفت آئی جب
آسماں نے مجھے سپر نہ کیا
کانپتا ہے وہ دل غضب سے ترے
جس نے اے بت خدا کا ڈر نہ کیا
جس نے دیکھا وہ روئے آتش ناک
پھر گماں اسے نے برق پر نہ کیا
کوچ اپنا بھی ہو گیا احقرؔ
غم و اندوہ نے سفر نہ کیا

غزل
آہ و نالہ نے کچھ اثر نہ کیا
رادھے شیام رستوگی احقر