آہ ملتے ہی پھر جدائی کی
واہ کیا خوب آشنائی کی
نہ گئی تیری سرکشی ظالم
ہم نے ہر چند جبہ سائی کی
دل نہیں اپنے اختیار میں آج
کیا مگر تو نے آشنائی کی
در پہ اے یار تیرے آ پہنچے
تپش دل نے رہنمائی کی
قابل سجدہ تو ہی ہے اے بت
سیر کی ہم نے سب خدائی کی
جو مقید ہیں تیری الفت کے
آرزو کب انہیں رہائی کی
جی میں بیدارؔ کھپ گئی میرے
خندق اس پنجۂ حنائی کی
غزل
آہ ملتے ہی پھر جدائی کی
میر محمدی بیدار