EN हिंदी
آہ ملتے ہی پھر جدائی کی | شیح شیری
aah milte hi phir judai ki

غزل

آہ ملتے ہی پھر جدائی کی

میر محمدی بیدار

;

آہ ملتے ہی پھر جدائی کی
واہ کیا خوب آشنائی کی

نہ گئی تیری سرکشی ظالم
ہم نے ہر چند جبہ سائی کی

دل نہیں اپنے اختیار میں آج
کیا مگر تو نے آشنائی کی

در پہ اے یار تیرے آ پہنچے
تپش دل نے رہنمائی کی

قابل سجدہ تو ہی ہے اے بت
سیر کی ہم نے سب خدائی کی

جو مقید ہیں تیری الفت کے
آرزو کب انہیں رہائی کی

جی میں بیدارؔ کھپ گئی میرے
خندق اس پنجۂ حنائی کی