آہ کو نغمہ کہ نغمے کو فغاں کرنا پڑے
دیکھیے کیا کچھ برائے دوستاں کرنا پڑے
اہل محمل غور سے سنتے رہیں روداد دل
کیا خبر کس لفظ کو کب داستاں کرنا پڑے
رکھ جبین شوق میں محفوظ گرمی نیاز
کون جانے تجھ کو اک سجدہ کہاں کرنا پڑے
پوچھیے اس سے زبان و لفظ کی مجبوریاں
جس کو حال دل نگاہوں سے بیاں کرنا پڑے
کچھ وہی سمجھے گا نازشؔ آج کے ماحول کو
جس کو زنداں پر یقین گلستاں کرنا پڑے
غزل
آہ کو نغمہ کہ نغمے کو فغاں کرنا پڑے
نازش پرتاپ گڑھی