آہ کو باد صبا درد کو خوشبو لکھنا
ہے بجا زخم بدن کو گل خود رو لکھنا
درد بھیگی ہوئی راتوں میں چمک اٹھا ہے
ہم کو لکھنا ہے تو برسات کا جگنو لکھنا
خواب ٹکرا کے حقائق سے ہوئے صد پارہ
اب انہیں آنکھ سے ڈھلکے ہوئے آنسو لکھنا
تو نے سلطانیٔ جمہور بدل دیں قدریں
آج فرہاد کو مشکل نہیں خسرو لکھنا
اب مناسب نہیں ہم عصر غزل کو یارو
کسی بجتی ہوئی پازیب کا گھنگھرو لکھنا
ہنر افشانی خامہ کو دعا دو کہ فضاؔ
لفظ کو سہل ہوا نافۂ آہو لکھنا
غزل
آہ کو باد صبا درد کو خوشبو لکھنا
فضا ابن فیضی