آہ کرنا دل حزیں نہ کہیں
آگ لگ جائے گی کہیں نہ کہیں
مرے دل سے نکل کے دنیا میں
چین سے حسرتیں رہیں نہ کہیں
بے حجابی نگاہ الفت کی
دیکھے وہ شرمگیں کہیں نہ کہیں
آ گئے لب پہ دل نشیں نالے
جا ہی پہنچیں گے اب کہیں نہ کہیں
ہم سمجھتے ہیں حضرت بیخودؔ
چوٹ کھا آئے ہو کہیں نہ کہیں
غزل
آہ کرنا دل حزیں نہ کہیں
بیخود بدایونی