آہ ہم ہیں اور شکستہ پائیاں
اب کہاں وہ بادیہ پیمائیاں
بحر غم ہے اور دل خلوت پسند
بادہ ہی بادہ ہے اور گہرائیاں
غفلتیں اب سوئے منزل لے چلیں
ہوتی جاتی ہیں خجل دانائیاں
میرے تلووں کے لہو کا فیض ہے
یہ کہاں تھیں دشت میں رعنائیاں
فرق کیا ہے زندگی و موت میں
اف محبت کی قیامت زائیاں
پھر نہ ابھرا جو کوئی ڈوبا یہاں
اف رے بحر عشق کی گہرائیاں
جوش طوفاں ہے کہ موجوں کا خروش
اب لیے ہے گود میں گہرائیاں
لے اڑا نشہ خیال یار کا
آ گئیں ہم کو فلک پیمائیاں
دونوں عالم ڈوب کر گم ہو گئے
اللہ اللہ قلب کی گہرائیاں
سر سے اونچا ہو گیا پانی جگرؔ
منتظر تھیں بحر کی گہرائیاں
غزل
آہ ہم ہیں اور شکستہ پائیاں
جگر بریلوی