آہ بھرتا ہوں تو بھرنے بھی نہیں دیتا ہے
اور وہ خاموشی سے مرنے بھی نہیں دیتا ہے
ناخدا کشتی کو ساحل سے لگاتا بھی نہیں
بیچ دریا میں اترنے بھی نہیں دیتا ہے
دوسرا زخم لگا دیتا ہے دل پر میرے
پہلے کو ٹھیک سے بھرنے بھی نہیں دیتا ہے
میرے آنسوؤں سے وہ سنگ پگھلتا بھی نہیں
سر پٹک کر مجھے مرنے بھی نہیں دیتا ہے
باز آتا بھی نہیں ضرب لگانے سے وہ
ٹوٹ کر مجھ کو بکھرنے بھی نہیں دیتا ہے
میرے سپنوں کو وہ سچ بھی نہیں ہونے دیتا
مگر امید کو مرنے بھی نہیں دیتا ہے
آئنے کو مرے چہرے سے شکایت ہے بہت
آئنہ مجھ کو سنورنے بھی نہیں دیتا ہے
اس کی محفل میں پہنچنے کی تمنا مت کر
وہ تو کوچے سے گزرنے بھی نہیں دیتا ہے

غزل
آہ بھرتا ہوں تو بھرنے بھی نہیں دیتا ہے
احمد کمال حشمی