آہ اے سودائے خام آرزو
تا بہ کے آخر نظام آرزو
ضبط آہ دل شکن اور میں حزیں
کر رہا ہوں احترام آرزو
ہوشیار اے انفعال کیف زا
حسن تک پہنچا پیام آرزو
چشم لطف آگیں نئے انداز سے
لے رہی ہے انتقام آرزو
اہل دل زندہ ہیں کس امید پر
نظم دنیا ہے نظام آرزو
یاس کی گنجائشیں کس دل میں ہیں
لے رہا ہے کون نام آرزو
بزم انجم جب سراپا گوش تھی
کاش تم سنتے پیام آرزو
آہ اب خود دارئ اکبر کہاں
ہو گئی وہ بھی غلام آرزو
غزل
آہ اے سودائے خام آرزو
اکبر حیدری