آہ اب تک تو بے اثر نہ ہوئی
کچھ تمہیں کو مری خبر نہ ہوئی
شام سے فکر صبح کیا شب ہجر
مر رہیں گے اگر سحر نہ ہوئی
کس سے دل کا سراغ پائیں گے ہم
تو ہی اے آرزو اگر نہ ہوئی
خلق سمجھی مجھی کو دیوانہ
چارہ فرمائے چارہ گر نہ ہوئی
کچھ نظر کہہ گئی زباں نہ کھلی
بات ان سے ہوئی مگر نہ ہوئی
شکوہ کیا ان سے خون ناحق کا
زندگی تھی ہوئی بسر نہ ہوئی
حشر کا دن بھی ڈھل گیا فانیؔ
دل کی روداد مختصر نہ ہوئی
غزل
آہ اب تک تو بے اثر نہ ہوئی
فانی بدایونی