EN हिंदी
آہ اب تک تو بے اثر نہ ہوئی | شیح شیری
aah ab tak to be-asar na hui

غزل

آہ اب تک تو بے اثر نہ ہوئی

فانی بدایونی

;

آہ اب تک تو بے اثر نہ ہوئی
کچھ تمہیں کو مری خبر نہ ہوئی

شام سے فکر صبح کیا شب ہجر
مر رہیں گے اگر سحر نہ ہوئی

کس سے دل کا سراغ پائیں گے ہم
تو ہی اے آرزو اگر نہ ہوئی

خلق سمجھی مجھی کو دیوانہ
چارہ فرمائے چارہ گر نہ ہوئی

کچھ نظر کہہ گئی زباں نہ کھلی
بات ان سے ہوئی مگر نہ ہوئی

شکوہ کیا ان سے خون ناحق کا
زندگی تھی ہوئی بسر نہ ہوئی

حشر کا دن بھی ڈھل گیا فانیؔ
دل کی روداد مختصر نہ ہوئی