آغوش رنگ و بو کے فسانے میں کچھ نہیں
حسرت نکل گئی تو زمانے میں کچھ نہیں
مایوسیوں میں حسن بھی روشن نہیں رہا
دل بجھ گیا تو شمع جلانے میں کچھ نہیں
ساقی کے کیف بادۂ پارینہ کی قسم
سائنس کے جدید خزانے میں کچھ نہیں
اک حسن نیم خواب کا عالم ہی اور ہے
سوئی ہوئی ادا کو جگانے میں کچھ نہیں
فطرت نئی زمانہ نیا زندگی نئی
کہنہ خدا کو پوجتے جانے میں کچھ نہیں
تیرا ہی ایک عکس تھا ہر سو نظر فریب
دیکھا تو میرے آئینہ خانے میں کچھ نہیں
کچھ ذکر جام و شاہد و مے کیجئے نشورؔ
ہوش و خرد کے سرد فسانے میں کچھ نہیں
غزل
آغوش رنگ و بو کے فسانے میں کچھ نہیں
نشور واحدی