EN हिंदी
آغوش احتیاط میں رکھ لوں جگر کہیں | شیح شیری
aaghosh-e-ehtiyat mein rakh lun jigar kahin

غزل

آغوش احتیاط میں رکھ لوں جگر کہیں

راج بہادر سکسینہ اوجؔ

;

آغوش احتیاط میں رکھ لوں جگر کہیں
ڈرتا ہوں لے اڑے نہ کسی کی نظر کہیں

غربت میں اجنبی کا بھی ہوتا ہے گھر کہیں
دن بھر کہیں گزاریے یا رات بھر کہیں

اغیار ہوں کہیں بت شوریدہ سر کہیں
سب کچھ ہو آہ میں تو ہو اپنی اثر کہیں

یوں اف نہ باغ دہر میں بربادی ہو کوئی
بلبل کا آشیاں ہے کہیں بال و پر کہیں

میں آج اپنی آہ کا کرتا ہوں امتحاں
ہوں آسماں زمین نہ زیر و زبر کہیں

قید قفس میں حسرت پرواز کیوں رہے
صیاد جو اڑا دے مرے بال و پر کہیں

رہتی ہے ان کی یاد مرے دل میں ہر گھڑی
اوجؔ ان کے دل میں کاش ہو میرا بھی گھر کہیں