آگے پہنچا جل کا دھارا بجرا پیچھے چھوٹ گیا
رستہ چھوڑ سواروں کو میں پیادہ پیچھے چھوٹ گیا
یہ بستی کون سی بستی ہے آ کے کہاں بس ٹھہر گئی
جس دھام اترنا چاہا تھا وہ قصبہ پیچھے چھوٹ گیا
آگے آگے لمبی ڈگر ہے ریت بھرے میدانوں کی
جس تٹ اک پل ٹھہرے تھے وہ دریا پیچھے چھوٹ گیا
بیٹھے ہیں سیلانی سارے پت جھڑ ہے وشواسوں کا
مندر چھوٹا گرجا چھوٹا کعبہ پیچھے چھوٹ گیا
وقت کی خانہ بندی ساری اب کے سفر میں دھول ہوئی
ماضی کیسا حال کہاں کا فردا پیچھے چھوٹ گیا
کتنے کچھ تھے جیون ساتھی کتنے کچھ تھے لہو شریک
چہرہ سب کا ساتھ ہے لیکن رشتہ پیچھے چھوٹ گیا
چھوٹا کمرہ حبس بلا کا چھوٹی عقل کے عاشق ہم
وحشت کرنے جائیں کہاں جب صحرا پیچھے چھوٹ گیا
غزل
آگے پہنچا جل کا دھارا بجرا پیچھے چھوٹ گیا
نشتر خانقاہی