آگے حریم غم سے کوئی راستہ نہ تھا
اچھا ہوا کہ ساتھ کسی کو لیا نہ تھا
دامان چاک چاک گلوں کو بہانہ تھا
دل کا جو رنگ تھا وہ نظر سے چھپا نہ تھا
رنگ شفق کی دھوپ کھلی تھی قدم قدم
مقتل میں صبح و شام کا منظر جدا نہ تھا
کیا بوجھ تھا کہ جس کو اٹھائے ہوئے تھے لوگ
مڑ کر کسی کی سمت کوئی دیکھتا نہ تھا
کچھ اتنی روشنی میں تھے چہروں کے آئنہ
دل اس کو ڈھونڈھتا تھا جسے جانتا نہ تھا
کچھ لوگ شرمسار خدا جانے کیوں ہوئے
اپنے سوا ہمیں تو کسی سے گلا نہ تھا
ہر اک قدم اٹھا تھا نئے موسموں کے ساتھ
وہ جو صنم تراش تھا بت پوجتا نہ تھا
جس در سے دل کو ذوق عبادت عطا ہوا
اس آستان شوق پہ سجدہ روا نہ تھا
آندھی میں برگ گل کی زباں سے ادا ہوا
وہ راز جو کسی سے ابھی تک کہا نہ تھا
غزل
آگے حریم غم سے کوئی راستہ نہ تھا
ادا جعفری