آگہی اور آگہی دیجیے آگہی کچھ اور
تیرگی گھور گھور ہے پھینکیے روشنی کچھ اور
اس کا خدا صنم صنم اس کا خدا حرم حرم
عشق کی گمرہی کچھ اور عقل کی گمرہی کچھ اور
اس کی تہی ہے جیب اور اس کا دماغ ہے تہی
اس کی ہے مفلسی کچھ اور اس کی ہے مفلسی کچھ اور
ناز ترا چمن چمن راز ترا دہن دہن
کہتی ہے تیرگی کچھ اور کہتی ہے روشنی کچھ اور
کہتی ہے دوپہر کی دھوپ میرا مزاج گرم ہے
لیکن اجالی رات میں کہتی ہے چاندنی کچھ اور
بد ہے کوئی نہ نیک ہے دونوں کا مقصد ایک ہے
گرچہ ہے رہزنی کچھ اور گرچہ ہے رہبری کچھ اور
گرچہ خدا کو آپ نے ماہ لقا بنا دیا
اس کے فراق میں جمیلؔ کیجئے شاعری کچھ اور
غزل
آگہی اور آگہی دیجیے آگہی کچھ اور
جمیلؔ مظہری