آغاز گل ہے شوق مگر تیز ابھی سے ہے
یعنی ہوائے باغ جنوں خیز ابھی سے ہے
جوش طلب ہی موجب درماندگی نہ ہو
منزل ہے دور اور قدم تیز ابھی سے ہے
کیا ارتباط حسن و محبت کی ہو امید
وہ جان شوق ہم سے کم آمیز ابھی سے ہے
ترتیب کارواں میں بہت دیر ہے مگر
آوازۂ جرس ہے کہ مہمیز ابھی سے ہے
پہلی ہی ضرب تیشہ سے کوہ گراں ہے چور
حسرت مآل سطوت پرویز ابھی سے ہے
کیا جانے میکشوں کا ہو کیا حشر صبح تک
ساقی کی ہر نگاہ دل آویز ابھی سے ہے
یہ ابتدائے شوق یہ پر شوق دل مرا!
اک جام آتشیں ہے کہ لبریز ابھی سے ہے
تابشؔ بھری بہار میں کوئی بچھڑ گیا
اب کے چمن میں بوئے خزاں تیز ابھی سے ہے
غزل
آغاز گل ہے شوق مگر تیز ابھی سے ہے
تابش دہلوی