آغاز عاشقی کا اللہ رے زمانہ
ہر بات بہکی بہکی ہر گام والہانہ
وہ سجدہ ہائے پیہم وہ ان کا آستانہ
اے کاش لوٹ آئے گزرا ہوا زمانہ
کونین کی توجہ اس بے رخی پہ صدقے
ہونٹوں پہ ہے تبسم تیور مخالفانہ
مجھ کو نہ تھی گوارا اپنی شکست لیکن
کیا کہئے اس نظر کا انداز فاتحانہ
سو بار دیکھ کر بھی یوں مضطرب ہیں نظریں
جیسے گزر گیا ہو دیکھے ہوئے زمانہ
محسوس ہو چلی ہیں تنہائیاں انہیں بھی
رکھے خدا سلامت پندار عاشقانہ
کیا اختیار اپنا مجبوریوں پہ دل کی
مانا کہ مشورہ ہے ناصح کا مخلصانہ
پھر چاند اور ستارے پھیلا رہے ہیں ظلمت
ایک تیری یاد سے تھا روشن سیاہ خانہ
ربط نگاہ و دل کو مدت ہوئی ہے عرشیؔ
ان کا مرا تعارف اب تک ہے غائبانہ
غزل
آغاز عاشقی کا اللہ رے زمانہ
عرشی بھوپالی