آگ لگ جائے گی اک دن مری سرشاری کو
میں جو دیتا ہوں ہوا روح کی چنگاری کو
ورنہ یہ لوگ کہاں اپنی حدوں میں رہتے
میں نے معقول کیا حاشیہ برداری کو
یہ پرندے ہیں کہ درویش ہیں زندانوں کے
کچھ سمجھتے ہی نہیں امر گرفتاری کو
اب ہمیں زندگی کرنے میں سہولت دی جائے
کھینچ لائے ہیں یہاں تک تو گراں باری کو
ایک طوفان بلا خیز نے منظر بدلا
پیڑ تیار ہوئے رسم نگوں ساری کو
اس نے وہ زہر ہواؤں میں ملایا ہے کہ اب
کونپلیں سر نہ اٹھائیں گی نموداری کو
کون کھینچے گا مرے جسم کی زنجیر آزرؔ
کون آسان کرے گا مری دشواری کو
غزل
آگ لگ جائے گی اک دن مری سرشاری کو
دلاور علی آزر