آگ کے پھول پہ شبنم کے نشاں ڈھونڈو گے
تم حقیقت کے لیے وہم و گماں ڈھونڈو گے
کون سی آس میں یہ سارا جہاں ڈھونڈو گے
ایک آوارہ سی خوشبو کو کہاں ڈھونڈو گے
ساتھ کچھ روز کا ہے راستہ چلتے لوگو
ہم چلے جائیں گے قدموں کے نشاں ڈھونڈو گے
تیر ترکش میں اگر بچ بھی گئے تو کیا ہے
مل نہ پائے گی کہیں اپنی کماں ڈھونڈو گے
رات کی گود میں خوشیوں کے ستارے بھر لو
پھر تو سورج کو لیے ایسا سماں ڈھونڈو گے
جب چلے جائیں گے بنجارے بہاریں لے کر
پھول والوں کی نگر بھر میں دکاں ڈھونڈو گے
اس سرائے سے نکل آگے بڑھو گے جب بھی
چاند تاروں سے پرے اپنا مکاں ڈھونڈو گے
غزل
آگ کے پھول پہ شبنم کے نشاں ڈھونڈو گے
دیپک قمر