آگ کا رشتہ نکل آئے کوئی پانی کے ساتھ
زندہ رہ سکتا ہوں ایسی ہی خوش امکانی کے ساتھ
تم ہی بتلاؤ کہ اس کی قدر کیا ہوگی تمہیں
جو محبت مفت میں مل جائے آسانی کے ساتھ
بات ہے کچھ زندہ رہ جانا بھی اپنا آج تک
لہر تھی آسودگی کی بھی پریشانی کے ساتھ
چل رہا ہے کام سارا خوب مل جل کر یہاں
کفر بھی چمٹا ہوا ہے جذب ایمانی کے ساتھ
فرق پڑتا ہے کوئی لوگوں میں رہنے سے ضرور
شہر کے آداب تھے اپنی بیابانی کے ساتھ
یہ وہ دنیا ہے کہ جس کا کچھ ٹھکانا ہی نہیں
ہم گزارہ کر رہے ہیں دشمن جانی کے ساتھ
رائیگانی سے ذرا آگے نکل آئے ہیں ہم
اس دفعہ تو کچھ گرانی بھی ہے ارزانی کے ساتھ
اپنی مرضی سے بھی ہم نے کام کر ڈالے ہیں کچھ
لفظ کو لڑوا دیا ہے بیشتر معنی کے ساتھ
فاصلوں ہی فاصلوں میں جان سے ہارا ظفرؔ
عشق تھا لاہوریے کو ایک ملتانی کے ساتھ
غزل
آگ کا رشتہ نکل آئے کوئی پانی کے ساتھ
ظفر اقبال