آگ ہی آگ ہے گلشن یہ کوئی کیا جانے
کس نے پھونکا ہے نشیمن یہ کوئی کیا جانے
نہ کہیں سوزن و رشتہ نہ کہیں بخیہ گری
سر بسر چاک ہے دامن یہ کوئی کیا جانے
دیکھتے پھرتے ہیں لوگ آئینے سیاروں کے
دل کا گوشہ بھی ہے درپن یہ کوئی کیا جانے
حسن ہر حال میں ہے حسن پراگندہ نقاب
کوئی پردہ ہے نہ چلمن یہ کوئی کیا جانے
عرشؔ اونچا تھا سر فن کبھی یا فخر و غرور
اب تہ تیغ ہے گردن یہ کوئی کیا جانے
غزل
آگ ہی آگ ہے گلشن یہ کوئی کیا جانے
عرش ملسیانی