EN हिंदी
آگ ہے پانی ہے مٹی ہے ہوا ہے مجھ میں | شیح شیری
aag hai pani hai miTTi hai hawa hai mujh mein

غزل

آگ ہے پانی ہے مٹی ہے ہوا ہے مجھ میں

کرشن بہاری نور

;

آگ ہے پانی ہے مٹی ہے ہوا ہے مجھ میں
اور پھر ماننا پڑتا ہے خدا ہے مجھ میں

اب تو لے دے کے وہی شخص بچا ہے مجھ میں
مجھ کو مجھ سے جو جدا کر کے چھپا ہے مجھ میں

جتنے موسم ہیں سبھی جیسے کہیں مل جائیں
ان دنوں کیسے بتاؤں جو فضا ہے مجھ میں

آئنہ یہ تو بتاتا ہے میں کیا ہوں لیکن
آئنہ اس پہ ہے خاموش کہ کیا ہے مجھ میں

اب تو بس جان ہی دینے کی ہے باری اے نورؔ
میں کہاں تک کروں ثابت کہ وفا ہے مجھ میں