آگ ہے پانی ہے مٹی ہے ہوا ہے مجھ میں
اور پھر ماننا پڑتا ہے خدا ہے مجھ میں
اب تو لے دے کے وہی شخص بچا ہے مجھ میں
مجھ کو مجھ سے جو جدا کر کے چھپا ہے مجھ میں
جتنے موسم ہیں سبھی جیسے کہیں مل جائیں
ان دنوں کیسے بتاؤں جو فضا ہے مجھ میں
آئنہ یہ تو بتاتا ہے میں کیا ہوں لیکن
آئنہ اس پہ ہے خاموش کہ کیا ہے مجھ میں
اب تو بس جان ہی دینے کی ہے باری اے نورؔ
میں کہاں تک کروں ثابت کہ وفا ہے مجھ میں
غزل
آگ ہے پانی ہے مٹی ہے ہوا ہے مجھ میں
کرشن بہاری نور