EN हिंदी
آفتاب اب نہیں نکلنے کا | شیح شیری
aaftab ab nahin nikalne ka

غزل

آفتاب اب نہیں نکلنے کا

حاتم علی مہر

;

آفتاب اب نہیں نکلنے کا
دور آیا شراب ڈھلنے کا

سانپ کہتے ہیں زلف کو شاعر
کام کرتے ہیں منہ کچلنے کا

لاکھ ہم چکنی چپڑی بات کریں
ان کا دل اب نہیں پھسلنے کا

صفت لب میں شعر کہتے ہیں
اب ارادہ ہے لعل اگلنے کا

کوٹتے ہیں جو اپنا ہم سینہ
ہے عوض چھاتیاں مسلنے کا

کیوں نہ ہر طرز میں ہو بات نئی
پاں ہے قابو زباں بدلنے کا

ایک بوسے کی بھی جمائے اب
قصد ہے ان کو مسی ملنے کا

نخل ماتم کے سائے میں نہ ٹھہر
ہے مسافر جو قصد چلنے کا

چشم پوشی سے طفل اشک اپنا
ڈھنگ سیکھا ہے اب مچلنے کا

حفظ تیر نگہ ہے عین خطا
نہیں پیغام موت ٹلنے کا

ہم بھی کھیلا کریں گے جان پر اب
شغل اچھا ہے دل بہلنے کا

مہرؔ حربا سے دوستی تا چند
غم نہیں رنگ کے بدلنے کا