EN हिंदी
آئیں گے وہ تو آپ میں ہرگز نہ آئیں گے | شیح شیری
aaenge wo to aap mein hargiz na aaenge

غزل

آئیں گے وہ تو آپ میں ہرگز نہ آئیں گے

ارشد علی خان قلق

;

آئیں گے وہ تو آپ میں ہرگز نہ آئیں گے
ہم اپنی بے خودی کے تماشے دکھائیں گے

ہم نقد دل جو سینے میں اپنے نہ پائیں گے
دزد نگاہ یار کو چوری لگائیں گے

اے بے خودی جو آپ میں ہم اب کی آئیں گے
پھر دل لگی سے بھی نہیں دل کو لگائیں گے

جب سوئے دشت آپ کے دیوانے جائیں گے
فرہاد و قیس دور تلک لینے آئیں گے

پروانہ وہ کہیں گے تو ہم ان کو شعلہ رو
ہم بھی جلائیں گے جو وہ ہم کو جلائیں گے

کیوں دابتے ہیں ہونٹھ وہ دانتوں میں بار بار
کیا تیغ لب کو آب گہر میں بجھائیں گے

دام بلا سے دیکھیے کیوں کر نجات ہو
کب تک وہ ہم کو زلف کی گلیاں جھکائیں گے

وحشیٔ چشم یار جو نکلے گا شہر سے
آنکھوں کو ڈھیلے آہوئے صحرا لگائیں گے

حوروں سے چل کے داد جمال اس کی لیں گے ہم
تصویر یار قصر جناں میں لگائیں گے

اٹھیں گے پھر نہ بیٹھ کے مانند نقش پا
ہم اپنے ضعف کی تمہیں طاقت دکھائیں گے

جاگے ہوئے فراق کے سوتے ہیں زیر خاک
بد خواب ہوں کے ہم جو فرشتے جگائیں گے

لینے میں جنس دل کے تو عجلت کمال ہے
دینے میں نقدے وصل کے برسوں جھکائیں گے

گرم خرام ہوں گے اگر صحن باغ میں
انگاروں پر وہ کبک چمن کو لٹائیں گے

سینہ سپر ہیں عاشق جاں باز سیکڑوں
تیغ نگاہ ناز وہ کب آزمائیں گے

اب کی تو ہجر یار میں ہم گور جھانک آئے
جیتے ہیں تو کسی سے نہ پھر دل لگائیں گے

اے شہسوار ناز یہ مٹتا ہے بار بار
تیرے سمند حسن کو ہم خود بنائیں گے

ہم کیوں اطاعت ان کی کریں فائدہ قلقؔ
کیا یہ بتان دہر خدا سے ملائیں گے