آئے تھے جس طرف سے وہ اک دن ادھر گئے
برگد کا پیڑ کٹ گیا سادھو گزر گئے
کیا زندگی ملی انہیں طوفاں کی گود میں
دو جسم ایک جسم ہوئے اور مر گئے
کرنے لگے قیاس کہیں قتل ہو گیا
آندھی کا رنگ سرخ تھا سب لوگ ڈر گئے
اب مجھ کو بھول بھال گئے سب معاشقے
ساون کی رت گزر گئی دریا اتر گئے
اک جسم میں اتر گیا اک سال دن بہ دن
اک ایک کر کے صحن میں پتے بکھر گئے
چھپ کر ملے بچھڑ گئے اور پھر نہ مل سکے
اک پل میں داستان کی تکمیل کر گئے

غزل
آئے تھے جس طرف سے وہ اک دن ادھر گئے
مراتب اختر