EN हिंदी
آئے تھے جس طرف سے وہ اک دن ادھر گئے | شیح شیری
aae the jis taraf se wo ek din udhar gae

غزل

آئے تھے جس طرف سے وہ اک دن ادھر گئے

مراتب اختر

;

آئے تھے جس طرف سے وہ اک دن ادھر گئے
برگد کا پیڑ کٹ گیا سادھو گزر گئے

کیا زندگی ملی انہیں طوفاں کی گود میں
دو جسم ایک جسم ہوئے اور مر گئے

کرنے لگے قیاس کہیں قتل ہو گیا
آندھی کا رنگ سرخ تھا سب لوگ ڈر گئے

اب مجھ کو بھول بھال گئے سب معاشقے
ساون کی رت گزر گئی دریا اتر گئے

اک جسم میں اتر گیا اک سال دن بہ دن
اک ایک کر کے صحن میں پتے بکھر گئے

چھپ کر ملے بچھڑ گئے اور پھر نہ مل سکے
اک پل میں داستان کی تکمیل کر گئے