EN हिंदी
آئے کیا تیرا تصور دھیان میں | شیح شیری
aae kya tera tasawwur dhyan mein

غزل

آئے کیا تیرا تصور دھیان میں

غلام مولیٰ قلق

;

آئے کیا تیرا تصور دھیان میں
کچھ سے کچھ ہے آن ہی کی آن میں

یاں اشارات غلط پر زندگی
واں ادا ہے اور ہی سامان میں

تیغ قاتل ہے رگ گردن مری
آب پیکاں دم تن بے جان میں

یا تو قاتل ہو گیا رحم آشنا
یا پڑے ہوں گے کہیں میدان میں

اشک اپنے پھر پھرا کر ہر طرف
آئے آخر تیرے ہی دامان میں

ہائے کیسے کیسے وارستہ مزاج
سرنگوں دم بند ہیں زندان میں

کعبہ آنکھوں میں سماتا ہی نہیں
کیا بتوں نے کہہ دیا کچھ کان میں

آنکھ کے اٹھتے ہی اٹھتے کچھ نہ تھا
ہم چلے ارمان ہی ارمان میں

دیر و کعبہ پر نہیں موقوف کچھ
اور ہی کچھ شان ہے ہر شان میں

گریۂ صد سری اور ہم کم حوصلہ
کشتی اپنی آ گئی طوفان میں

جنت و دوزخ سے کیا امید و بیم
حسرتیں سی حسرتیں ہیں جان میں

خود پرستی اور اسلام آفریں
کعبۂ عاشق ہے کفرستان میں

اے قلقؔ کل تک گدائے دیر تھے
آج دعوے ہو گئے ایمان میں