آئے ہم شہر غزل میں تو اس آغاز کے ساتھ
مدتوں رقص کیا حافظ شیراز کے ساتھ
اول عشق ہے اور ہم سفری کی لذت
اور آہستہ قدم اور ذرا ناز کے ساتھ
اول اول تو دھنک بن کے اڑا وہ طائر
اور پھر رنگ بدلتے گئے پرواز کے ساتھ
ایک ویران دریچے پہ خزاں کی بارش
کوئی تصویر بناتی رہی آواز کے ساتھ
میں وہ سرشار کہ تھا نشۂ یک خواب بہت
اس نے تعبیر بھی دی خواب کے آغاز کے ساتھ
ہے کوئی واقف اسرار سر مے خانہ
کیا یہ مینا سے صراحی نے کہا راز کے ساتھ
ہم نے ہی دل سے ہم آہنگ گلو کو رکھا
لوگ لے اپنی بدلتے رہے ہر ساز کے ساتھ
غزل
آئے ہم شہر غزل میں تو اس آغاز کے ساتھ
رضی اختر شوق