آدمی نہ اتنا بھی دور ہو زمانے سے
صبح کو جدا سمجھے شام کے فسانے سے
دیکھ طفلک ناداں قدر کر بزرگوں کی
گتھیاں نہ سلجھیں گی مضحکہ اڑانے سے
زخم سر کے دیوانے زخم دل کا قائل ہو
زندگی سنورتی ہے دل پہ چوٹ کھانے سے
مطرب جنوں ساماں تو نہ چھیڑ یہ نغمہ
دھن خراب ہوتی ہے تیرے گنگنانے سے
گرمئ سخن سے کچھ کام بن نہیں سکتا
مل ہی جائے گی منزل دو قدم بڑھانے سے
غزل
آدمی نہ اتنا بھی دور ہو زمانے سے
شکیل بدایونی