آداب عاشقی سے بیگانہ کہہ رہی ہے
میری نظر مجھی کو دیوانہ کہہ رہی ہے
ہر آہ سر پیہم دل سے نکل نکل کر
دل کی تباہیوں کا افسانہ کہہ رہی ہے
اس درجہ ہے مسلط دیوانگی کا عالم
دیوانگی بھی مجھ کو دیوانہ کہہ رہی ہے
یہ انقلاب دوراں یہ عیش و غم کے عنواں
گویا زبان فطرت افسانہ کہہ رہی ہے
میری زباں انہیں سے ان کے ستم کا قصہ
یوں دب کے کہہ رہی ہے گویا نہ کہہ رہی ہے
اے برق فتنہ ساماں عنوان تازہ کوئی
یہ کیا سنا سنایا افسانہ کہہ رہی ہے
ہوں زندہ اک مرقع میں صورت آفریں کا
دنیا شکیلؔ میرا افسانہ کہہ رہی ہے
غزل
آداب عاشقی سے بیگانہ کہہ رہی ہے
شکیل بدایونی