آبرو الفت میں اگر چاہئے
رکھنی سدا چشم کو تر چاہئے
دل تو تجھے دے ہی چکے جان بھی
لیجئے حاضر ہے اگر چاہئے
یار ملے یا نہ ملے صبح و شام
کوچۂ جاناں میں گزر چاہئے
نام بھی نم کا نہ رہا چشم میں
اب تو گریے لخت جگر چاہئے
تیر نگہ وہ ہے کہ جس تیر کے
سامنے ہونے کو جگر چاہئے
اب کی بچے جی تو کسو کے تئیں
پھر نہ کہیں بار دگر چاہئے
دل بھی جواہر ہے ولیکن حضور
اس کے پرکھنے کو نظر چاہئے
غزل
آبرو الفت میں اگر چاہئے
غلام یحییٰ حضورعظیم آبادی