آبلہ پائی ہے محرومی ہے رسوائی ہے
اس بت ناز کا دل پھر بھی تمنائی ہے
میری آنکھوں سے ٹپکتے ہیں لہو کے آنسو
آج بے لوث محبت کی بھی رسوائی ہے
لب پہ پھر نام وہی حسن وہی آنکھوں میں
اے دل زار یہی تیری شکیبائی ہے
مضحکہ خیز ہے انداز تکلم ان کا
مئے الفت مگر آنکھوں میں اتر آئی ہے
ثانیؔ زار تو اب اور کرے گی کیا کیا
آستانے پہ مسلسل تو جبیں سائی ہے
غزل
آبلہ پائی ہے محرومی ہے رسوائی ہے
زرینہ ثانی